Header Ads Widget

حیدرآباد: الیکٹرک سپلائی کمپنی حیسکو اب بھی واپڈا کے ماتحت کیوں؟ خود مختاری کے دعوے اور عملی حقیقت میں تضاد کیوں؟

حیسکو اب بھی واپڈا کے ماتحت؟ خود مختاری کے دعوے اور عملی حقیقت میں تضاد؟

وزارتِ توانائی حکومتِ پاکستان نے کئی برس قبل پاور ڈسٹریبیوشن کمپنیوں کو خود مختار بورڈ آف ڈائریکٹرز کے تحت علیحدہ اداروں کے طور پر تشکیل دیا۔ مقصد یہ تھا کہ ان پاور ڈسٹریبیوشن کمپنیز کو انتظامی خود مختاری دی جائے، تاکہ یہ کمپنیاں اپنے فیصلے خود کر سکیں اور بہتر سروس فراہم کر سکیں۔ تاہم، آج بھی کئی اہم معاملات میں یہ کمپنیاں، بالخصوص حیدرآباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (حیسکو) واپڈا ہاؤس لاہور سے عملی طور پر جُڑی ہوئی نظر آتی ہے۔

اہم سوالات جو جواب طلب ہیں:

1. حیسکو کے ملازمین کے فائنل پینشن واجبات اب بھی واپڈا ہاؤس لاہور سے کیوں جاری کیے جاتے ہیں؟

2. حیسکو ملازمین کے GPF جنرل پروویڈنٹ فنڈ GLI گروپ لائف انشورنس)، اور WWF ورکرز ویلفیئر فنڈ کی (ادائیگیاں) بھی واپڈا کے توسط سے ہی کیوں کی جاتی ہیں؟

3. حیسکو میں موجود ریجنل ٹریننگ کالج  (RTC)، جامشورو اور آپریشن سرکل ٹریننگ سینٹرز (CTC) جیسے اداروں کی موجودگی کے باوجود، گریڈ 16 اور اس سے اوپر کے انجنیئرز اور افسران کو واپڈا ہاؤس لاہور، اسلام آباد، اور فیصل آباد DPE اور ٹریننگ کیلئے کیوں بھیجا جاتا ہے؟ ان کے نتائج اور نوٹیفکیشنز بھی واپڈا سے ہی کیوں جاری ہوتے ہیں؟

4. جب اس وقت وزارتِ توانائی کے ماتحت پاور ڈسٹریبیوشن کمپنیاں خود مختار کارپوریٹ طرز پر کام کر رہی ہیں، تو ان کے افسران و ملازمین پر اب بھی ڈسیپلنری کیسز اور واپڈا سروس رولز ریگیولیشنز کیوں لاگو کیے جاتے ہیں؟ کیا کمپنی خود اپنے رولز ریگیولیشنز بنانے سے قاصر ہے؟ یا نا اہل ہے؟

کیا بورڈ آف ڈائریکٹرز کے پاس اختیار نہیں؟

اگر حیدرآباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (حیسکو) واقعے ہی ایک خود مختار ادارہ ہے اور اس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز فیصلہ سازی کا مکمل اختیار رکھتے ہیں؟ تو پھر یہ تمام تربیتی، مالی اور انتظامی فیصلے حیسکو کے اندرونی ڈھانچے میں کیوں نہیں کیے جا سکتے؟ کیا یہ بورڈ ان اہم معاملات پر غور نہیں کر سکتا اور ایسا نظام وضع نہیں کر سکتا؟ جس سے حیسکو مکمل طور پر ایک خودمختار ادارہ بن کر سامنے آئے؟

تجزیہ:

یہ صورتحال نہ صرف انتظامی کنفیوژن کو جنم دیتی ہے، بلکہ ملازمین اور عام صارفین دونوں کے ذہن میں شکوک و شبہات پیدا کرتی ہے۔ اگر حیسکو جیسے ادارے مکمل خود مختار اور با اختیار نہیں؟ تو پھر "خود مختاری" کا دعویٰ محض ایک دکھاوہ محسوس ہوتا ہے۔


ضروری تجویز:
ضرورت اس امر کی ہے، کہ وزارتِ توانائی اور حیسکو کا بورڈ آف ڈائریکٹرز اس معاملے کا سنجیدگی سے نوٹس لے کر اور حیسکو کو عملی طور پر خودمختار بنانے کے لیے اقدامات کرے۔ تربیت، فنڈز کی ادائیگی، اور انتظامی اختیارات کا مرکز خود حیسکو ہی ہونا چاہیے، نہ کہ واپڈا ہاؤس لاہور۔


 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

تین 3000 ہزار سے زائد گوگل بلاگ + (فیس بک، سوشل میڈیا) گروپ اینڈ پیج وزیٹرس روزانہ

تین 3000 ہزار سے زائد گوگل بلاگ + (فیس بک، سوشل میڈیا) گروپ اینڈ پیج وزیٹرس روزانہ
We design and display to advertise your business contents