Header Ads Widget

پاکستان میں توانائی بحران (اینرجی کرائسس) کا آخر حل کیا ہے؟

ملک بھر میں جاری توانائی بحران کی وجہ سے جہاں انڈسٹری مشکلات کا شکار ہے وہیں تاجر طبقہ اور عام شہریوں کی زندگی بھی لوڈ شیڈنگ کے باعث شدید متاثر ہو رہی ہے۔ ایسے میں حکومت کی جانب سے بھیجے جانے والے بجلی کے بھاری بلوں نے ہر طبقے کی مالی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ اگست 2022ء میں بجلی کی اوسط مجموعی پیداوار 20سے 22ہزار میگاواٹ تک محدود رہی جب کہ بجلی کی طلب 28 ہزار میگاواٹ سے زیادہ ہے۔ 

ملک بھر میں جاری توانائی بحران کی وجہ سے جہاں انڈسٹری مشکلات کا شکار ہے وہیں تاجر طبقہ اور عام شہریوں کی زندگی بھی لوڈ شیڈنگ کے باعث شدید متاثر ہو رہی ہے۔ ایسے میں حکومت کی جانب سے بھیجے جانے والے بجلی کے بھاری بلوں نے ہر طبقے کی مالی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ اگست 2022ء میں بجلی کی اوسط مجموعی پیداوار 20سے 22ہزار میگاواٹ تک محدود رہی جب کہ بجلی کی طلب 28 ہزار میگاواٹ سے زیادہ ہے۔ 

سرکاری ذرائع کے مطابق پاکستان کو بجلی کی طلب اور پیداوار میں چار ہزار سات سو میگاواٹ سے زیادہ کے شارٹ فال کا سامنا ہے۔ اس میں اگر ڈھائی ہزار میگا واٹ کے لائن لاسز بھی شامل کر لئے جائیں تو مجموعی کمی ساڑھے سات ہزار میگاواٹ سے زیادہ ہو جاتی ہے۔ یہ حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ بجلی کی ترسیل کے نظام کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ بجلی کی کم قیمت پر فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے بھی ہنگامی اقدامات کئے جائیں۔

 واضح رہے کہ پاکستان میں بجلی کے استعمال میں گھریلو صارفین کا حصہ47فیصد، انڈسٹری کا 28فیصد ، زراعت کا نو فیصد اور کمرشل صارفین کا حصہ سات فیصد ہے ۔ یہ امر اس بات کی غماضی کرتا ہے کہ بجلی کی پیداواری لاگت اور لائن لاسز جتنے زیادہ بڑھیں گے اس کا اتنا ہی زیادہ بوجھ گھریلو اور صنعتی صارفین کو برداشت کرنا پڑے گا۔ یہاں یہ اَمر بھی قابل ذکرہے کہ21-2020ء میں ہماری بجلی پیدا کرنے کی مجموعی استعداد 37ہزار 261میگاواٹ تھی جو 22-2021ء میں بڑھ کر 41ہزار 557 میگاواٹ ہو چکی ہے۔اس میں سے 25فیصد بجلی ہائیڈل، 24فیصد آر ایل این جی، 14فیصد آر ایف او، 13فیصد کوئلے، نو فیصد نیوکلیئر ، ساڑھے آٹھ فیصد گیس اور پانچ فیصد ونڈ انرجی سے پیدا کی جاتی ہے جب کہ سولر اور بگاس سے پیدا کی جانے والی بجلی کا مجموعی پیداواری استعداد میں حصہ ڈھائی فیصد سے بھی کم ہے۔

 اس کے مقابلے میں پاکستان اپنی ضرورت کی61فیصد بجلی تھرمل، 24فیصد ہائیڈل ، 12فیصد نیوکلیئر اور تین فیصد قابلِ تجدید انرجی سے پیدا کر رہا ہے۔ اس حوالے سے اگر گزشتہ پانچ سال کے اعداد وشمار کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ 2020سے 2022تک بجلی کی تھرمل پیداوار میں اضافہ اور ہائیڈل پیداوار میں کمی آئی ہے جب کہ قابلِ تجدید توانائی کی پیداوار میں اضافے کی شرح انتہائی سست ہے۔ پاکستان میں توانائی کا بحران اس وجہ سے بھی سنگین سے سنگین تر ہوتا جا رہا ہے کہ بجلی کی پیدوار کا زیادہ انحصار درآمدی تیل اور گیس یا پن بجلی پر ہے۔

عالمی سطح پر تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے آبی ذخائر سے بجلی کی پیداوار میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کمی آ رہی ہے۔ اس لئے توانائی کے موجودہ بحران کے پیش نظر قابلِ تجدید توانائی کے ذرائع سے بجلی کی پیداوار بڑھانے پر زیادہ زور دینے کی ضرورت ہے۔ سولر انرجی اس وقت جدید دنیا میں استعمال ہونے والا سب سے کم قیمت توانائی کا ذریعہ ہے لیکن ہم تقریبا 600 میگاواٹ بجلی سولر سے حاصل کر رہے ہیں جو مجموعی پیداوار کا1.6فیصد ہے۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں توانائی کی طلب میں 2030تک آٹھ گنا اور 2050تک بیس گنا اضافہ متوقع ہے۔ایسے میں سولر انرجی کے وسائل کو استعمال کرنا بہت ضروری ہو جاتا ہے کیوں کہ پاکستان جغرافیائی طور پراس خطے میں واقع ہے جہاں سال بھر سورج کی روشنی موجود رہتی ہے۔ اس سلسلے میں ہم چین سے رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں جس نے گزشتہ چند برسوں میں غیر معمولی ترقی کی ہے۔ 2017 کے آخر میں چین 131.1گیگاواٹ کی سولر انرجی پیدا کرنے کی استعداد کے ساتھ دنیا بھر میں پہلے نمبر پر تھا۔

 امریکہ 51گیگا واٹ کے ساتھ دوسرے، جاپان49گیگاواٹ کے ساتھ تیسرے، جرمنی 42گیگا واٹ کے ساتھ چوتھے، اٹلی 19.7گیگا واٹ کے ساتھ پانچویں جب کہ ہندوستان 18.3گیگا واٹ کے ساتھ چھٹے نمبر پر ہے۔ ایسے میں ہمارے ہاں سولر انرجی کی پیدوار بڑھانے کے حوالے سے سست روی ناقابلِ فہم ہے۔ پاکستان کا جغرافیہ اور ماحولیاتی حالات سولر انرجی کے زیادہ سے زیادہ استعمال کے لئے مثالی ہیں۔ توانائی کے بحران کو نسبتاً کم وقت میں حل کرنے کے لئے بھی سولر انرجی انتہائی اہم ہےکیوں کہ سولر پلیٹس اور پاور پلانٹس کوئی فضائی آلودگی یا گرین ہاؤس گیسیں پیدا نہیں کرتے بلکہ جب سولر انرجی کے باعث بجلی پیدا کرنے کے دیگر ذرائع کے استعمال میں کمی آتی ہے تو اس کا ماحول پر مثبت اثر پڑتا ہے۔

اس حوالے سے حکومت نے یکم اگست کو قابل ِتجدید توانائی کے شعبے کو فروغ دینے کے لئے نیشنل سولر پالیسی جاری کرنے کا عندیہ دیا تھا لیکن اس حوالے سے تاحال کوئی پیشرفت سامنے نہیں آئی۔ حکومت کو اس سلسلے میں حالات کی نزاکت کا احساس کرنا چاہئے کیونکہ عوام کو اس وقت شمسی توانائی کی شدید ضرورت ہے۔ ملک میں جاری توانائی بحران کی ایک اور بڑی وجہ یہ ہے کہ ملک میں کبھی پیداواری استعداد کے مطابق بجلی پیدا نہیں کی جا سکی۔ یہی وجہ ہے کہ لوڈشیڈنگ اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا سلسلہ رُکنے کا نام نہیں لے رہا ۔

 یہ صورتحال اس وجہ سے بھی زیادہ مایوس کن ہے کہ گزشتہ دو برس میں لارج اسکیل مینوفیکچرنگ اور ٹیکسٹائل کے شعبے نے غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جہاں برآمدات میں نمایاں اضافہ کیا وہیں پیداواری استعداد بڑھانے کے لئے نئے پلانٹ، مشینری اور اپ گریڈیشن کی مد میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے ۔ ایسے میں بجلی و گیس کی قلت اور قیمتوں میں اضافے سے یہ سرمایہ کاری ڈوب

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

تین 3000 ہزار سے زائد گوگل بلاگ + (فیس بک سوشل میڈیا) گروپ اینڈ پیج وزیٹرس روزانہ

تین 3000 ہزار سے زائد گوگل بلاگ + (فیس بک سوشل میڈیا) گروپ اینڈ پیج  وزیٹرس روزانہ
We design display advertise your business card & label contents