زندگی کا سفر معلوم نہیں کہاں جاکر ختم ہوگا؟ مگر زندگی کی ابتدا سے انتہا تک جو مراحل انسان طئے کرتا ہے، وہ بڑے بھیانک اور دلچسپ ہوتے ہیں۔
زندگی جیون مقصد
انسان کے پیدا ہوتے ہی ایک ایسا
سفر شروع ہوتا ہے جسے ایک نہ ایک دن ختم ہونا ہوتا ہے کبھی یہ سفر بہت ہی
دراز ہو جاتا ہے اور کبھی یہ سفر فقط شروع ہوتے ہی ختم ہو جاتا ہے ۔ایک
انسان پیدا ہوتے ہی ساتھ ہی کسی ٹرین کی طرح زندگی کے سفر پر رواں دواں ہو
جاتا ہے۔ جیسے جیسے وہ پروان چڑھتا ہے۔ وہ یہ بھولتا جاتا
ہے۔ کہ اس کی آخری منزل کیا ہے؟
غرض تو یہی کہ انسان چاہے جتنا مرضی طاقتور ہو یا چاہے جتنا مرضی امیر کیوں نہ ہو جائے؟ بالآخر اس کو موت کا مزہ چکھنا ہی ہے۔ وہ ٹرین جو اپنی منزل پر رواں دواں ہے جب بھی کسی اسٹیشن پر سے گزرتی ہے، تو آپکی زندگی کا ایک دور کم کر جاتی ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ جب یہ سفر ختم ہوگا، ہمیں اپنی منزل پر اترنا ہی پڑے گا۔ ہم غفلت کا شکار رہتے ہیں، ہم بھول جاتے ہیں کہ زندگی کی یہ ٹرین جس منزل تک ہمیں پہنچائے گی، اس پر پہنچنے کا وقت اور جگہ نہ ہم جانتے ہیں اور نہ ہمیں پتا ہے۔ کہ کب ہمارا سٹیشن آجائے اور ہمیں اپنے پیاروں کو اپنے قریبی رشتہ داروں کو الوداع کہنا پڑ جائے۔
موت زندگی کو الوداع
اگر بات کریں زندگی سے موت تک کہ سفر کی، تو کسی مفکر نے کیا خوب لکھا ہے کہ یہ سفر محض ایک
ازان سے نماز کے بیچ کا وقفہ ہے۔ جب ایک بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کا
سب سے قریبی رشتہ دار اس کے کانوں میں اذان دیتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے
کہ بچے کو آگاہ کیا جائے۔ کہ وہ ایک مسلم خاندان کا رکن ہے
اور جس خاندان میں وہ پیدا ہوا ہے، وہاں کلمے کو اپنے ایمان کا بنیادی رکن سمجھا جاتا ہے۔ اس کو یہ احساس دلایا جاتا ہے، کہ اللہ کے سوا
کوئی معبود نہیں ہے، یہ پوری کائنات اسی کی بادشاہی ہے اورہم سب کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے اور محمدﷺ اللہ اللہ کے آخری پیغمر اور رسول ہیں۔ اس کے بعد وہ بچہ بڑا ہوتا ہے۔ زندگی کی راہ میں حاہل تمام رکاوٹوں سے خود لڑنا سیکھتا ہے
اورآخرکار خود کواتنا قابل بنا لیتا ہے کہ اپنی روزی روٹی کا
انتظام خود کر سکتا ہے ۔
اس کے بعد وہ انسان خود ایک ایسا رشتہ بناتا ہے۔ جس سے وہ اپنی نسل کو آگے بڑھاتا ہےاورپھرایک وقت کے بعد اس کی گردن اور اس کی کمر جھکنا شروع ہو جاتی ہے۔ یہی وہ وقت ہے جب اسے احساس ہوتا ہے، کہ اب میری زندگی کا وہ دور ختم ہو رہا ہے۔ جس میں انسان کو اپنی طاقت پر اپنے حسن پر ناز ہوتا ہے۔ اسے اس وقت ایسا لگتا ہے۔ کہ اس سے زیادہ خوبصورت اور اس سے زیادہ حَسِین کوئی بھی نہیں ہے؟ مگر جیسے ہی بڑھاپا شروع ہوتا ہے وہی حسین چہرہ اور جوان جسم جھریوں اور چھائیوں سے بھر جاتا ہے۔ وہی کمر جس میں پورے خاندان کا بوجھ اٹھانے کی طاقت ہوتی ہے۔ اب اس حال کو پہنچ چکی ہوتی ہے، کہ اس کو اپنے وجود کو سیدھا کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ پورے خاندان کا اکیلا کفیل اب اپنے بچوں کا محتاج ہے۔ ایسے وقت میں انسان کی مدد صرف وہ پرورش کر سکتی ہے، جو اس شخص نے اپنی اولاد کو دی ہے۔ اگر تو اپنی جوانی میں اپنی طاقت سے بھری زندگی میں اس شخص نے اپنی اولاد میں میانہ روی اور حقوق العباد کا درس دیا ہوگا، تو لازمی ہے عمر کہ اس آخری عرصے میں اس کی دی ہوئی یہی پرورش اس کے کام آئے اور بجائے اس کے کہ وہ شخص کسی غیر کا محتاج ہو، اس کی اپنی اولاد ہی اس کا کندھا بن کر آخری سہارا بن جائے گی ۔
خدائے عزوجل کی نعمتوں کا شکریہ
اللہ نے ہمیں اس لئیے پیدا کیا کیونکہ ہم اس کی نعمتوں کا استعمال
کر سکیں اور بدلے میں اس کے سامنے سجدہ کریں اور اس کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا
کریں، اس نے زمیں میں بہت سی نشانیاں چھوڑی ہیں اور ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم
انہیں تلاش کریں ۔اگر ہم بات کریں تو موجودہ طرز تعلیم کی تو وہ
کائنات کی طرف اشارہ کر کہتی ہے کہ بڑا سوچو مگر اگر ہم بات کریں حقیقی طرز
تعلیم کی تو وہ کائنات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہے کہ صرف بڑا نہیں بلکہ بہت
بڑا بہت خوبصورت اور آگے کا سوچو ۔ اس لئیے اگر ہم دنیاوی تعلیم کے ساتھ
ساتھ دینی تعلیم بھی حاصل کریں تو ہمارے لئیے بہت فائدہ مند ثابت ہوگا ۔کیونکہ یہ
بات آپ بھی مانیں گے کہ جو علم ابھی تک سائنس بھی ہمیں نہیں پہنچا سکی وہ اللہ کی
قدرت اور اس کی کتاب قرآن کریم سے باآسانی مل جاتا ہے ۔
اگر بات کریں اس زندگی کی جس کے خلاصہ کا میں نے اوپر بھی زکر کیا ہے کہ یہ زندگی کا سفر ایک ازان اور ایک نماز کا ہے ازان دینے کے بعد کی زندگی کیسی گزاری اس کا حساب آپ کے مرنے کے فورا بعد آپ سے لیا جائے گا ۔
ہم اگر صرف یہ بات اپنے دماغ میں رکھیں کہ ایک دن مسجد میں
ہمارے نام کا بھی اعلان ہو گا ایک دن علاقے کی مساجد میں لگے لاوڈسپیکر پر
ہمارا نام بھی لیا جائے گا ہم اگر صرف یہ سوچیں کہ لوگ ہمارے مرنے کی خبر سن
کر ہماری مغفرت کی دعا کریں اور یہ کہیں کہ ایک اچھا بندہ اس دنیا سے رخصت
ہو گیا تو ضروری ہے کہ ہم حیاتی میں ایسے اعمال کریں کہ ہمارے مرنے کے بعد
بھی لوگ ہمارے کردار کی تعریف کریں ۔ ہم اس زندگی کو جو خدا کی دی ہوئی نعمتوں میں
سے ایک نعمت ہے اسے ایسے گزاریں کہ مرتے وقت ہمیں بھی فخر ہو اور خدا کو بھی
ہم پر فخر ہو کہ اس کا ایک عاجز بندہ اس کے پاس آرہا ہے ۔
رات کٹتی رہی دن گزرتے رہے
اک تصور تیرا ذہن میں لیئے ہم
شاہراہِ جہاں سے گزرتے رہے
اپنی آوارگی کا پتا ہے کسے؟
زخم کھاتے رہے اور سنورتے رہے
شام آئی نہا کر تیرے حسن میں
چاند تارے فلک پر نکھرتے رہے
اپنا مطلوب و مقصود اب کچھ نہیں
خواب بنتے رہے اور بکھرتے رہے
چند خوابوں سے تعبیر تھی زندگی
خواب ہی زندگی سے گریزاں رہے
1 تبصرے
Aap k likhne ka andaz bilkul professional hai
جواب دیںحذف کریںہمیشہ یاد رکھیئے اپنی منزل کی جانب سفر میں لوگ آپ کے راستے میں پتھر بچھائیں گے۔ مگر یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ ان پتھروں سے اپنے لیئے کیا بنائیں گے؟ مشکلات کی ایک دیوار یا مشکلات سے بھرپور منزل کو پار کرنے کیلئے کامیابی کی ایک پل؟ ایک نصیحت ہے کہ اپنی زندگی کو مثالی بنائیں اور کچھ ایسا کر کے دکھائیں۔ جو آپ سے پہلے کسی نے نہ کیا ہو؟ زندگی کامیابی کی طرف مسلسل ایک جدوجہد کا نام ہے۔ بے حس بے مقصد اور بے وجہ زندگی کسی کام کی نہیں۔ لہٰذا سچ کی پرچار کریں، ظالم کے خلاف مظلوم کی حمایت میں ڈٹ کر کھڑے ہو جائیں اور انسانیت کی خدمت کر کے اعلیٰ ظرف ہونے کا ثبوت دیں۔ یہ ہی زندگی ہے۔