Header Ads Widget

پاکستان میں لوڈشیڈنگ کیوں بڑھ گئی ہے؟ اس پر قابو کیسے پایا جا سکتا ہے؟

پاکستان میں لوڈشیڈنگ کی وجوہات کیا ہیں اور کیا یکم مئی سے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ممکن ہے؟
کیا آپ کی طرف لائٹ ہے، دن میں کتنی بار لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو آج کل شاید ہر دوسرا شخص گفتگو کے دوران پوچھ رہا ہے کیونکہ گرمی کی شدت میں اضافے کے ساتھ ہی پاکستان بھر میں بجلی کی لوڈشیڈنگ میں اضافہ ہو گیا ہے۔

بڑے چھوٹے شہروں میں تقریباً ہر دو گھنٹے بعد ایک گھنٹے کے لیے بجلی کی بندش کا سامنا ہے۔ ملک کے دیہی علاقوں میں 24 گھنٹوں میں کل کتنی دیر بتی اور پنکھا چل رہا ہو گا اس کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔

پاکستان کے بیشتر علاقے اس برس شدید گرمی کی لپیٹ میں ہیں، گرمی کی اس شدت میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں اچانک اضافے نے انھیں مزید پریشان کر رکھا ہے۔

اسلام آباد کے مکین محمود نے حالیہ دنوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کے باعث اپنی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ 'سحری سے پہلےاور بعد، افطار سے قبل اور بعد بجلی مسلسل جاتی ہے۔ نہ نیند پوری ہوتی ہے اور نہ ہی دفتر کا کام ٹھیک سے ہو پاتا ہے۔'

ماہ رمضان کے آخری عشرے میں عوام عید کی تیاری کے سلسلے میں بازاروں کا رخ کر رہے ہیں۔ ایسے میں کاروباری افراد کا کہنا ہے کہ بجلی کی بار بار بندش سے انھیں گاہکوں کی کمی اور نقصان کا سامنا ہے۔

وفاقی دارالحکومت کے ایک بیوٹی پارلر میں کام کرنے والی بیوٹیشن کومل نے بتایا کہ 'کام نہ ہونے کے برابر ہے، ہم مارکیٹ میں بیٹھے سب لوگ جنریٹر چلا کر کام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔'

یہ حالات کی کوئی اچھی منظر کشی نہیں لیکن حال ہی میں حکومت سنبھالنے والے وزیراعظم شہباز شریف نے اعلان کیا ہے کہ یکم مئی سے ملک میں لوڈ شیڈنگ کا مکمل خاتمہ ہو جائے گا لیکن جمعے کو جب یکم مئی کی ڈیڈ لائن ختم ہونے میں دو دن باقی تھے وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر نے امید ظاہر کی ہے کہ 'آئندہ 10 دن میں لوڈشیڈنگ میں کمی آنا شروع ہو جائے گی۔'

جمعے کو ایک پریس کانفرنس میں جب ان سے سوال کیا گیا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے یکم مئی سے لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا اعلان کیا صرف ایک اعلان ہی ثابت ہو گا، تو وزیر توانائی کا کہنا تھا کہ صرف گذشتہ ایک ہفتے میں بجلی کی طلب میں دو سے تین ہزار میگاواٹ اضافہ ہو گیا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ 'گرمی کی وجہ سے بجلی کی اضافی طلب ہے، اللہ سے دعا ہے کہ گرمی سے برف جلدی پگھل جائے تاکہ بجلی کی اضافی طلب کو پورا کیا جا سکے۔'

کیا حکومت عملی طور پر بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کر پائے گی؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے پہلے ہم اس وقت بجلی کی لوڈشیڈنگ کی وجوہات جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

لوڈشیڈنگ کی وجوہات کیا ہیں؟
جمعے کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر نے بجلی کے اس حالیہ بحران کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ اس وقت لوڈشیڈنگ کی دو بنیادی وجوہات ایندھن کی عدم دستیابی اور تکنیکی خرابیاں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ایندھن کی عدم دستیابی کے باعث 5739 میگاواٹ بجلی بنانے کی صلاحیت استعمال نہیں ہو رہی جبکہ 2156 میگاواٹ بجلی تکنیکی خرابیوں کی وجہ سے پیدا نہیں ہو رہی۔'

وزیراعظم شہباز شریف نے جب اس معاملے کی جانب توجہ کی تو متعلقہ حکام کی جانب سے ان کو دی جانے والی بریفنگ میں بتایا گیا تھا کہ گذشتہ دور حکومت میں بجلی گھروں کے لیے مناسب وقت پر ایندھن فراہم نہ کرنا، متعدد پاور پلانٹس تکنیکی خرابیوں کی وجہ سے بند ہونے سمیت متعدد وجوہات کے باعث ملک کو بجلی کی قلت کا سامنا ہے۔

بریفنگ میں یہ بھی کہا گیا کہ موجودہ حکومت نے دو ہفتے میں ایندھن کا انتظام کیا ہے، بجلی گھروں سے بجلی کی پیداوار بڑھا کر لوڈشیڈنگ کا سدِباب بھی کیا جا رہا ہے۔

یاد رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے حلف اٹھانے کے بعد کہا تھا کہ 'پاور پلانٹس بند پڑے ہیں اور سابقہ حکومت نے ایندھن بروقت نہیں خریدا۔'

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک میں بجلی کی مجموعی پیداوار تقریباً 18500 میگا واٹ ہے جبکہ طلب کے لحاظ سے ملک کو 500 سے 2000 میگا واٹ کمی کا سامنا ہے۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وزارت توانائی کے ایک متعلقہ افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ 'بروقت ایندھن نہ خریدنا، پاور پلانٹس میں تکنیکی خرابیاں اور سابقہ حکومت کی جانب سے ان کی دیکھ بھال نہ کرنا موجودہ بحران کی وجہ بنی ہے۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'موجودہ حکومت کی جانب سے بجلی کی پیداوار بڑھانے کے لیے ایندھن کی دستیابی کے لیے کام کیا جا رہا ہے۔'

وزارت توانائی کے افسر نے مزید کہا کہ ’حقیقت یہ بھی ہے کہ ہمارے پاس پلانٹس کو چلانے کے لیے ایندھن موجود نہیں جس کی ذمہ داری سابقہ حکومت پر عائد ہوتی ہے ، آئی پی پیز کو ادائگیاں نہیں کی گئیں اور یہ مسئلہ سابقہ وزیر توانائی کے دور میں بھی تھا، جب ادائیگیاں نہیں ہوتیں اور ایندھن نہیں ملتا تو پھر پلانٹس اپنی مکمل استعداد کے ساتھ کام نہیں کرتے۔'

متعلقہ حکام کا کہنا ہے کہ ’عام طور پر جب بجلی کی اتنی زیادہ طلب ہوتی ہے تو اس وقت تک آبی ذخائر ہمارے ڈیم فل لیول تک بھرے ہوئے ہوتے ہیں لیکن اس بار ابھی گلیشئیر نہیں پگھلے۔‘

خرم دستگیر نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے اتوار کو قدرتی گیس (آر این ایل جی) ملنا شروع ہو جائے گی اور تھر اینگرو اور پورٹ قاسم کا پلانٹ بھی اتوار کو ہی بجلی بنانا شروع کر دے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ فرنس آئل اور گیس ملنے سے لوڈشیڈنگ میں کمی آئے گی اور 10 دنوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ نصف ہو جائے گا۔

خرم دستگیر کے بقول یکم مئی سے حکومت کی طرف سے گیس کی فراہمی شروع ہو جائے گی۔
سابق وزیر توانائی حماد اظہر کا حکومت کو چیلنج

ملک میں جاری لوڈشیڈنگ اور موجودہ حکومت کی جانب سے اس صورتحال کا ذمہ دار سابق حکومت کو قرار دینے پر پی ٹی آئی کے سابق وزیر توانائی حماد اظہر کہتے ہیں کہ 'میں نے اس حکومتی دعوے کو چیلنج کیا ہے۔'

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ ’حکومت کے پاس اتنے پاور پلانٹس ہیں ہی نہیں تو پھر وہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ 27 میں سے 21 پلانٹس بند ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جب وہ حکومت چھوڑ کر گئے تو اس وقت 'مجموعی طور پر پانچ پلانٹس تکنیکی بنیادوں پر بند تھے ان میں سے تین پرائیویٹ سیکٹر میں ہیں اور جہاں پاور پلانٹس کے بند ہونے کی بات ہے تو دیکھ بھال اور مرمت کے لیے پلانٹس کو بند کرنا عام بات ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’جب ہم حکومت چھوڑ کر گئے تھے تب تو بجلی کی طلب و رسد میں کوئی فرق نہیں تھا، ہمارے پاس فرنس آئل کے بھی دو لاکھ ٹن کا ذخیرہ موجود تھا۔ ہمارا قدرتی گیس کا جو پیک پریشر ہے وہ بھی مطلوبہ سے زیادہ تھا اور مکمل طور پر مستحکم تھا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’سرکلر ڈیبٹ یعنی گردشی قرضے بھی ساڑھے چار سو ارب سے سو ارب تک نیچے آ چکا تھا۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’رواں برس پی ٹی آئی حکومت نے تین سو ارب کی پروجیکشن کی تھی کہ 300 بلین سے چار سو بلین تک سرکلر ڈیبٹ کے سٹاک میں کمی کی جائے گی۔‘

’موجودہ حکومت کے پاس دو سے تین ہزار میگاواٹ اضافی بجلی ہے‘
کیا موجودہ حکومت کی جانب سے ہفتے کی چھٹی ختم کرنے کے فیصلے نے بھی پاور سیکٹر پر دباؤ بڑھایا؟ اس سوال کے جواب میں سابق وفاقی وزیر حماد اظہر کا کہنا تھا کہ ہفتے کی چھٹی کوئی معنی نہیں رکھتی اس سال اس حکومت کے پاس اضافی بجلی ہے کیونکہ رواں برس دو نیوکلئیر پاور پلانٹس بھی فعال ہیں جن کی پیداواری صلاحیت زیادہ ہے۔

'اس سال 2400 میگا واٹ کے دو نیوکلئیر پلانٹ بھی ہیں جو پہلے نہیں تھے 1200 میگا واٹ کا ایک پاور پلانٹ تو پچھلے مہینے سسٹم میں آیا ہے اور پانچ سو میگا واٹ بجلی دے رہا ہے۔ موجودہ حکومت کے پاس دو سے تین ہزار میگا واٹ اضافی بجلی ہے۔'

تو غلطی کہاں ہوئی جو لوڈشیڈنگ اتنی بڑھ گئی ہے؟
سابق وزیر توانائی حماد اظہر موجودہ حکومت پر الزام عائد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 'نئی حکومت بروقت فیصلے نہیں کر سکی۔ جب حکومت بدلی تو ہفتہ دس دن تک تو معاملہ ٹھیک رہا لیکن نئی حکومت سے غلطیاں ہوئی اور بد انتظامی ہوئی ہے، بروقت گیس اور فیول کی ڈائیورژن نہیں ہو سکی۔انھوں نے غلط فیصلہ کیا اور اسے کور کرنے کے لیے مزید غلط فیصلے کیے۔‘

حماد اظہر کا کہنا ہے کہ ’نئی حکومت نے عجلت میں گیس سے پلگ کرنے کے بجائے فرنس آئل کے ساتھ پلگ کرنے کی کوشش کی جس سے فرنس آئل کی کمی ہو گئی۔‘

وہ موجودہ حکومت پر الزام عائد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 'حکومت نے دوسری غلطی بین الاقوامی منڈی میں ایل ین جی کے چار سودے کر کے کی جبکہ ایک ہی کرنا چاہیے تھا جو کہ کافی ہوتا۔ اور یہ مہنگے ترین سودے تھے۔'

پی ٹی آئی دور حکومت میں تیل کی خریداری میں تاخیر یا پاور پلانٹس کو ادائیگیاں روکے جانے کی تردید کرتے ہوئے حماد اظہر نے کہا کہ 'ایسا کبھی نہیں ہوا۔' ان کا کہنا تھا کہ 'ہاں کوئلے کی قیمت بڑھ رہی ہے اس پر حکومت کو خبردار کیا گیا۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ جب ان کی حکومت گئی تھی اس وقت ملک میں ڈیزل کا ایک ماہ کا ذخیرہ موجود تھا۔ حماد اظہر نے موجودہ حکومت پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ’انھوں نے تیل کی قیمتوں پر اتنی کنفیوژن پھیلائی کہ لوگوں نے اس کو ذخیرہ کیا اور اب گندم کی کٹائی کے سیزن میں کسان کے پاس ڈیزل نہیں پہنچ پا رہا۔ کچھ پتہ نہیں آگے کیا کرے گی یہ حکومت۔‘

ماہرین کیا کہتے ہیں؟
بجلی کی لوڈ شیڈنگ پر توانائی کے شعبے کے ماہرین کی رائے موجودہ و سابقہ حکومت کے دعوؤں اور الزامات سے کچھ مختلف ہے۔

نیپرا کے سابق افسر فضل اللہ قریشی کہتے ہیں کہ ’اصل مسئلہ مینیجمنٹ کا ہے جس کو بہتری کی ضرورت ہے۔ ملک میں چند پاور پلانٹس مہنگے لگے ہیں اور کورونا وبا کے بعد تیل کی بڑھتی قیمت اور تیل کی سپلائی متاثر ہونے سے کچھ پاور پلانٹس بند ہو گئے۔ نیپرا ان پاور پلانٹس کا آڈٹ ٹھیک سے نہیں کرتی سابقہ دور حکومت میں ایک آڈٹ رپورٹ تیار کی گئی لیکن اس کو سامنے کبھی نہیں لایا گیا نہ کبھی اس پر عمل کیا گیا۔‘

فضل اللہ قریشی کہتے ہیں کہ ’ملک میں ہائیڈل نظام کمزور ہو رہا ہے اور ہم اسے ہینڈل نہیں کر پا رہے۔ یہ سستی بجلی پیدا کرنے کا نظام ہے لیکن فلوز کی وجہ سے یہ متاثر ہوا ہے پھر واپڈا اور ارسا کی جانب سے ڈیموں کے حوالے سے بد انتظامی کی وجہ سے حالات اچھے نہیں ہے۔'



ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

تین 3000 ہزار سے زائد گوگل بلاگ + (فیس بک سوشل میڈیا) گروپ اینڈ پیج وزیٹرس روزانہ

تین 3000 ہزار سے زائد گوگل بلاگ + (فیس بک سوشل میڈیا) گروپ اینڈ پیج  وزیٹرس روزانہ
We design display advertise your business card & label contents