بلاگر نیوز مانیٹرنگ ویب ڈیسک | حیدرآباد
بلاگر نیوز کو اپنے ذرائع سے موصول ہونے والی انفارمیشن کے مطابق حیسکو میں ملازمین کی تنخواہوں و دیگر فنڈز میں کروڑوں روپے کا گھپلہ ہوا۔ جس پر ایف آئی اے کی
جانب سے ابتدائی طور 12 مارچ 2024 کو حیسکو حیدرآباد الیکٹرک سپلائی کمپنی کی چار (آپریشن ڈویژنز) کے حیسکو افسران و اسٹاف کے خلاف اسٹیٹ کی مدعیت میں Corruption و بدعنوانی کرنے کے الزام میں چار ایف آئی آرز درج کردی گئیں۔ جس کے نتیجے میں متعدد حیسکو ایگزیکٹو انجنیئرز، فنانس ڈائریکٹوریٹ افسران، اکاؤنٹس افسران اور بینک عملے کو گرفتار کر دیا گیا۔
01۔ آپریشن ڈویژن حیسکو قاسم آباد، عمرکوٹ، سانگھڑ اور نوابشاھ سے الزام کی زد میں آنے والے بینک عملے کو بھی ایف آئی آرز میں شامل کر دیا گیا۔
02۔ حیسکو اکاؤنٹس اسکینڈل کا یہ کیس ابتدائی مرحلے میں (اسپیشل جج) اینٹی کرپشن کورٹ حیدرآباد (سندھ) میڈم شگفتہ اے کاکا کی عدالت میں چلایا گیا، لیکن بعد ازاں ان کی بیماری کی وجہ سے اچانک موت واقع ہونے پر، یہ کیس کچھ عرصے کیلئے سسپینڈ ہو گیا۔
03۔ دوبارہ یہ کیس تب چلا جب اشوک کمار دودیجا کو بطور اسپیشل جج اینٹی کرپشن کورٹ حیدرآباد مقرر کر دیا گیا۔
04۔ کیس کا ٹرائل چلنے سے پہلے ہی ایک حیسکو چیف انجنیئر ریاض احمد پٹھان کو مکمل رلیف دیا گیا۔ معتبر ذرائع کے مطابق فائنل چالان لسٹ سے چیف انجنیئر حیسکو ریاض احمد پٹھان کا نام ہی خارج کر دیا گیا۔ جس کے پیچھے کوئی قانونی و تکنیکی وجوہات اور اسباب ہو سکتے ہیں اور کورٹ آرڈر میں لکھا گیا، کہ چیف انجنیئر حیسکو ریاض احمد پٹھان کے کیس میں ثبوتوں اور گواہوں کی بناں پر، (ایف آئی اے) اپنے الزامات کا دفاع کرنے میں مکمل طور ناکام رہی، مگر کیس کا ٹرائل چلنے سے پہلے ہی کسی ملزم افسر کو چند دنوں میں عدالتی تحفظ ملنا اور تحقیقاتی ادارے کا اس ملزم افسر کے خلاف کمزور ثبوت پیش کرنے کے پیچھے، کئی سوالات جنم لے رہے ہیں۔
05۔ اسکینڈل میں ملوث دیگر حیسکو ایگزیکٹو انجنیئرز و افسران اور بینک عملے کی بھی پکی ضمانتیں منظور کردی گئیں۔
06۔ چالان پیش ہونے کے بعد آپریشن ڈویژن حیسکو قاسم آباد کے دو اکاؤنٹس آفیسرز قربان علی جاموٹ اور پاکستان واپڈا ہائیڈرو لیبر یونین کے (مرکزی صدر) عبداللطیف نظامانی کے بیٹے گل محمد نظامانی کو عدالتی احاطے سے گرفتار کر دیا گیا اور ان کی ضمانتیں بھی رد کر دی گئیں۔
07۔ اسکینڈل میں ملوث تمام حیسکو ایگزیکٹو انجنیئرز کی کنفرم Bail منظور کردی گئی، جو اس وقت واپس اپنے، اپنے عہدوں پر دوبارہ فائز ہو چکے ہیں، جس پر کچھ دیگر حیسکو افسران اپنی منفی رائے کا اظہار کرتے ہیں، کہ جن ایگزیکٹو انجنیئرز و افسران پر کرپشن کے الزامات عائد ہیں، ان میں سے بعض افسران DR جمع کروا چکے ہیں، اور اس عمل سے یہ ثابت ہو جاتا ہے، کہ وہ افسران اس بات کا اقرار کرتے ہیں، کہ کرپشن یہ کالا جرم وہ کر چکے ہیں، مگر اب وہ رقم واپس کر کے اپنے ہاتھ صاف کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں، اور کیا صرف لوٹی ہوئی رقم واپس کرنے سے کوئی اپنے جرم سے سبکدوش ہو سکتا ہے کیا؟ ایسے سوال اور اس طرح کے دیگر سوال عدلیہ اور ادارتی شفاف انکوائری اور احتسابی عمل پر ایک سوالیہ نشان بن سکتے ہیں؟
08۔ ان چار ایف آئی آرز کے علاوہ ایف آئی اے نے آپریشن ڈویژن حیسکو لطیف آباد، گاڑی کھاتہ، پھلیلی، ٹنڈو محمد خان، کوٹری، ٹنڈو آدم اور دو مزید ڈویژن کی انکوائری جاری رکھی، مگر ذرائع کے مطابق بعد ازاں کسی حد تک اب یہ کہا جا سکتا ہے، کہ یہ تفتیش بھی مکمل طور ختم ہونے جا رہی ہے۔
اس معاملے سے متعلق ادارے سے منسلک کچھ تجزیہ کار اور سیاسی و سماجی لوگ کیا رائے رکھتے ہیں؟ ملاحظہ فرمائیں۔
ضروری نوٹ: یہ رپورٹ قومی اداروں کی کرپشن پر گہری نظر رکھنے والے عالمی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشل و دیگر پاکستان کے ممتاز تجزیہ نگار و صحافیوں کی رائے کو ظاہر کرتی ہے، اس رپورٹ سے کسی کا اتفاق کرنا ضروری نہیں ہے۔
حیسکو (حیدرآباد الیکٹرک سپلائی کمپنی) کے جولائی 2017 تا جون 2023 کے مالی اسکینڈل میں ملوث افسران و اسٹاف کو ایف آئی اے (فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی) اور اینٹی کرپشن کورٹ کی جانب سے ابتدائی عارضی اور فرضی رلیف دینے سے متعلق معاملے کو سمجھنے کے لیے کچھ اہم نکات پر غور کرنا ضروری ہے۔ اگرچہ ایف آئی اے نے مارچ 2024 میں درج چار ایف آئی آرز (فرسٹ انفارمیشن رپورٹس) اور تحقیقات میں دیگر افسران کو ملازمین کی تنخواہوں اور الاؤنسز میں کروڑوں روپے کے غبن میں ملوث قرار دیا ہے، لیکن اگر تحقیقاتی ادارے اور عدالت انہیں رلیف دے رہے ہیں، تو اس کے پیچھے کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔
ممکنہ وجوہات:
- ثبوتوں کی کمی:عدالتی نظام میں ثبوتوں کی بنیاد پر فیصلے کیے جاتے ہیں۔ اگر تحقیقاتی ادارے ثبوت اکٹھا کرنے میں ناکام رہے ہوں یا ثبوت کمزور ہوں، تو عدالت مجرموں کو سزا نہیں دے سکتی۔
- قانونی پیچیدگیاں:بعض اوقات قانونی خرابیاں یا طریقہ کار میں غلطیاں ہوتی ہیں، جن کی وجہ سے ملوث افراد کو رلیف مل جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر تحقیقاتی رپورٹس میں کوئی خامی ہو یا قانونی تقاضے پورے نہ ہوئے ہوں۔
- سیاسی یا انتظامی دباؤ:بعض اوقات طاقتور افراد یا ادارے تحقیقات اور عدالتی فیصلوں پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ اگر ملوث افسران کو سیاسی یا انتظامی دباؤ کی وجہ سے رلیف دیا جا رہا ہے، تو یہ نظام انصاف کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔
- رقم واپس کرنے کا معاملہ:اگر کچھ افسران لوٹی ہوئی رقم واپس کر رہے ہیں، تو یہ ممکن ہے کہ عدالت یا تحقیقاتی ادارے اسے ایک مثبت قدم سمجھتے ہوں اور انہیں رلیف دے دیا جائے۔ تاہم، رقم واپس کرنا جرم کو ختم نہیں کرتا، بلکہ اسے کم کر سکتا ہے۔
ممکنہ نتائج:
- عوام کا اعتماد کم ہونا:اگر تحقیقات شفاف نہیں ہوئی ہیں اور مجرموں کو سزا نہیں ملتی، تو عوام کا اعتماد عدالتی اور تحقیقاتی اداروں پر کم ہو سکتا ہے۔ لوگ انصاف کے نظام پر شک کرنے لگتے ہیں۔
- کرپشن میں اضافہ:اگر مجرموں کو سزا نہیں ملتی، تو اس سے دیگر افراد بھی کرپشن کرنے کی جرات کر سکتے ہیں، کیونکہ انہیں لگے گا کہ وہ سزا سے بچ سکتے ہیں۔
- معاشی نقصان:کروڑوں روپے کے غبن سے معیشت کو نقصان پہنچتا ہے۔ یہ رقم عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر خرچ کی جا سکتی تھی، لیکن اس کے بجائے چند افراد کی جیبوں میں چلی گئی۔
- بین الاقوامی سطح پر اثرات:اگر ملک میں کرپشن کے واقعات بڑھتے ہیں اور انصاف کا نظام کمزور ہو جاتا ہے، تو بین الاقوامی ادارے اور سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے سے ہچکچا سکتے ہیں۔ اس سے ملک کی معاشی ترقی متاثر ہو سکتی ہے۔
- اخلاقی گراوٹ:اگر مجرموں کو سزا نہیں ملتی، تو معاشرے میں اخلاقی گراوٹ بڑھ سکتی ہے۔ لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کر سکتے ہیں، جس سے معاشرتی عدم استحکام پیدا ہو سکتا ہے۔
حل کے لیے
تجاویز:
- شفاف تحقیقات:تحقیقات کو مکمل طور پر شفاف اور غیر جانبدارانہ بنایا جائے۔ کسی بھی قسم کے دباؤ کو روکا جائے۔
- عدالتی نظام کو مضبوط بنانا:عدالتی نظام کو مزید مضبوط کیا جائے تاکہ مجرموں کو سزا مل سکے۔ قانونی خرابیوں کو دور کیا جائے۔
- عوامی آگاہی:عوام میں آگاہی بڑھائی جائے تاکہ وہ کرپشن کے خلاف آواز اٹھا سکیں۔ میڈیا اور سول سوسائٹی کو اس معاملے میں فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔
- اینٹی کرپشن اداروں کو اختیارات:اینٹی کرپشن اداروں کو مزید اختیارات دیے جائیں تاکہ وہ بلا خوف و خطر کام کر سکیں۔
- رقم واپس لینے کا عمل:اگر کچھ افسران رقم واپس کر رہے ہیں، تو اسے مثبت قدم سمجھا جائے، لیکن انہیں سزا سے مستثنیٰ نہیں ہونا چاہیے۔ رقم واپس کرنا جرم کو ختم نہیں کرتا۔
اگر ان اقدامات پر توجہ نہیں دی گئی، تو اس کے طویل مدتی منفی اثرات ہو سکتے ہیں، جو ملک کی ترقی اور استحکام کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔
0 تبصرے
ہمیشہ یاد رکھیئے اپنی منزل کی جانب سفر میں لوگ آپ کے راستے میں پتھر بچھائیں گے۔ مگر یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ ان پتھروں سے اپنے لیئے کیا بنائیں گے؟ مشکلات کی ایک دیوار یا مشکلات سے بھرپور منزل کو پار کرنے کیلئے کامیابی کی ایک پل؟ ایک نصیحت ہے کہ اپنی زندگی کو مثالی بنائیں اور کچھ ایسا کر کے دکھائیں۔ جو آپ سے پہلے کسی نے نہ کیا ہو؟ زندگی کامیابی کی طرف مسلسل ایک جدوجہد کا نام ہے۔ بے حس بے مقصد اور بے وجہ زندگی کسی کام کی نہیں۔ لہٰذا سچ کی پرچار کریں، ظالم کے خلاف مظلوم کی حمایت میں ڈٹ کر کھڑے ہو جائیں اور انسانیت کی خدمت کر کے اعلیٰ ظرف ہونے کا ثبوت دیں۔ یہ ہی زندگی ہے۔